سید محمد زبیر مارکیٹ بھٹکل (کراولی نیوز بیرو 19اگست 2024 بروز پیر)
اللہ تعالی فرماتا ہے
زنا کے قریب نہ پھٹکو، وہ بہت بُرا فعل اور بڑا ہی بُرا راستہ ہے (الإسراء آیت 32)
آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، اور زبان کا زنا بولنا، اوردل کا زنا یہ ہے کہ وہ خواہش کرتا ہے، شرمگاہ اس کی تکمیل کرتی ہے یا تکذیب۔‘‘ (بخاری)
چھوٹے بچے کتنے معصوم ہوتے ہیں گھر میں ان کی موجودگی سے ایسا لگتا ہے کہ باغ کی تتلیاں اڑتی پھر رہی ہوں، بچے کس کو پیارے نہیں ہوتے، دلوں کا ارمان ہوتے ہیں، بچوں کی من موہنی باتوں اور ان کی مسکراہٹوں سے ساری کلفتیں دور ہوجاتی ہیں،ان کے وجود سے اک سکون کا سا احساس ہوتا ہے، وہ نہ ہوں تو گھر میں ویرانی اور خاموشی کا راج ہوتا ہے
بچوں سے زیادہ بچیوں کی تربیت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، بچیاں بڑی لاڈلی ہوتی ہیں، ایک پودے سے لے کر درخت بننے تک ان کی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے، جب تک ان کی شادی نہیں ہوجاتی دل کو قرار نہیں ملتا ہے
بچیاں معصوم اور بھولی بھالی ہوتی ہیں، انھیں اپنے گرد و پیش کے حالات سے واقفیت نہیں ہوتی، کتنے بچھو اور سانپ جھاڑیوں میں چپھے ہوئے رہتے ہیں جو موقع پاتے ہی ڈس لیتے ہیں
گھروں میں ٹیوشن دینے کے لئے استاد آتے ہیں، گھر میں مرد رہتے ہیں کبھی نہیں بھی رہتے ہیں، ایسا بھی ہوتا ہے ٹیوشن دینے والے کی نیت میں بگاڑ پیدا ہو، اس طرح کے بے شمار واقعات اخبارات کی سرخیاں بنتی ہیں، کبھی استاد بچیوں کو گود میں بٹھاتا ہے،
بچیاں اپنے استادوں کا احترام کرتی ہیں وہ اپنی بات کھل کر والدین کو بتا بھی نہیں سکتی ہیں، وہ نادان ہوتی ہیں، جانتی بھی نہیں ہیں، اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے،
بچیوں کو کبھی مرد ٹیچر کے پاس ٹیوشن نہ دلائیں خواتین ٹیچرز ہی ان کے لئے موزوں ہیں ٹیوشن مخلوط نہ ہو
دوسری بات یہ ہے کہ اپنی بچیوں کو دکان میں سودا سلف وغیرہ لانے کے لئے اکیلے ہرگز نہ بھیجیں، معصوم بچیوں کو اکیلا دیکھ کر بعض دکاندار موقع کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، اپنی گود میں بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس پر غلط نظریں رکھتے ہیں، جسم کے نازک حصہ پر ہاتھ پھیرتے ہیں، اور اسے کوئی چاکلیٹ دے کر بہلاتے پھسلاتے ہیں، کبھی بچی غیرت کے مارے بتا نہیں پاتی ہے
ایسے واقعات سماج میں پیش آتے رہتے ہیں، بچیوں کے مستقبل کے خاطر والدین انھیں ظاہر نہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، ایک شخص نے بتایا ایک بچی دکان کا سامان لے کر گھر میں آئی، وہ کافی گھبرائی ہوئی تھی والدین نے اس کی گھبراہٹ کا سبب پوچھا، تو وہ رونے لگی، اس نے بتایا کہ دکاندار نے اس کے ساتھ کیسی بری حرکت کی، زیر جامہ تک ہاتھ پھیرنے کی ناپاک کوشش کی اس کے والدین پریشان ہیں،
اپنی بچیوں کو پاس پڑوس کے گھروں میں اکیلے کوئی تحفہ دے کر ہرگز نہ بھیجیں، کبھی اس گھر میں اکیلا مرد اور نوجوان رہتا ہے، موقع کی مناسبت سے ناجائز فعل اور غلط کاری ہو سکتی ہے
ڈاکٹروں اور عامل بابا کے پاس بھی خواتین اکیلے میں جاتی ہیں شرم و حیا کی وجہ سے یا طلاق کے خوف کی وجہ سے خواتین اسے برداشت کرتی ہیں، یہ بھوکے بھیڑیئے ہیں جو اپنی ہوس کا شکار بناتے ہیں، خواتین مجبور ہوتی ہیں، کبھی اکیلے روحانی علاج کے لئے جائیں نہ ہی جسمانی علاج کے لئے جائیں،
شریعت کی رو سے جن مردوں سے نکاح کرنا جائز ہے، ان سے پردہ کرنا واجب ہے یہ محر ہیں اور جن سے کبھی بھی نکاح کرنا جائز نہیں، ان سے پردہ کرنا واجب نہیں یہ غیر محرم ہیں
پھوپھی زاد ماموں زاد اور خالہ زاد بھائیوں سے پردہ ضروری ہے، لوگ اس میں احتیاط نہیں کرتے، اس کے نتیجہ میں خرابیاں جنم لیتی ہیں
بچیوں کو شوخ اور بھڑکیلے یا تنگ و باریک لباس پہنا کر شادی بیاہ میں لے جاتے ہیں، بلا آستین شرٹ ٹائٹ لیگینگ شورٹ فراک کسی میں بازو غائب‘ قمیص کا پچھلا حصہ غائب، جس کی وجہ سے نظریں ان کا تعاقب کرتی ہیں، آپ اپنی بچی کو ایکسپوز کیوں کررہے ہیں، بچیوں کو مکمل اور ساتر لباس پہنا کر لے جائیں، بچیوں کو بنانے اور بگاڑنے میں والدین کا ہی اہم کردار ہوتا ہے، گھر کے ماحول سے ہی سب سیکھتے ہیں، اور جب کوئی حادثہ پیش اتا ہے اس وقت ہوش ٹھکانے لگتے ہیں
لباس شخصیت کا آئینہ دار ہوتے ہیں، اس سے کسی کی شرافت اور عظمت کا اندازہ ہوتا ہے، اخلاق اور تہذیب اس سے جھلکتی ہے، بچیوں کے لباس کو دیکھ کر ان کے والدین کی شخصیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے
بچوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں، ان کو آزاد نہ چھوڑیں، انہیں آیاووں اور ملازمین کے حوالہ نہ کریں
بچوں پر نظر رکھیں، وہ کہاں جا رہے ہیں، کس سے مل رہے ہیں، کون ان کے دوستوں میں شامل ہیں
آج کل بچے تعلیم کے میدان میں آگے ہیں، چھوٹے بچے جن کو کمپیوٹر کا دماغ حاصل ہے، بڑوں کے مقابلہ میں کافی تیز ہیں، لیکن ان کے اخلاق درست نہیں ہیں والدین کو اہمیت نہیں دیتے ہیں، بڑوں کا ادب نہیں ہے،
ضد اور ہٹ دھرمی ان میں پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے والدین پریشان ہیں
حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کسی باپ نے اپنی اولاد کو کوئی عطیہ اور تحفہ حسن ادب اور اچھی تربیت سے بہتر نہیں دیا۔ ‘‘(ترمذی شریف)