بچپن کی حسین یادیں

لوگ سب کچھ بھول سکتے ہیں، مگر اپنی بچپن کی بھولی بھالی یادوں کو بھول نہیں سکتے، جب مسجد سے مؤذن اذان دیتا تھا، تو گھر کی خواتین اپنے بستر سے فورآ اٹھ کر بیٹھ جاتیں، اور اپنے سر پر پلو ڈال دیتیں، اور نماز کے لئے جب جائے نماز بچھاتیں، تو دیر تک اسی مصلے پر بیٹھی رہتیں، مغڑب کی نماز ادا کرتے ہوئے عشاء کی نماز کے پڑھنے کے بعد ہی فارغ ہوتیں، فجر کی اذان سے طلوع آفتاب تک ذکر و اذکار اور تلاوت قرآن میں مشغول ہوتیں، اذان کی آواز کے دوران بات چیت کرنا گناہ تصور کرتیں، بچوں کو کہانیاں سناتیں، جس میں بھوت پریت ہوتے پریاں اور شہزادیاں ہوتیں، حضرت فاطمہ رضي الله عنها اور حضرت عائشہ رضي الله عنها کے قصے بیان کئے جاتے جنت اور جھنم کا تذکرہ ہوتا، بچے قصے بڑے شوق سے سنتے ہیں، رات جب ہوتی سب دادی اماں یا نانی اماں کے پاس جمع ہوتے،

یہ ہماری مائیں تھیں، یہ ہماری دادی اور نانی اماں تھیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے،

آج اذان کی آواز سنی جاتی ہے، اذان کے احترام میں سر پر دوپٹہ نہیں ہوتا، ٹھیک ہے، دوپٹہ سر پر ہمیشہ ہونا چاہیے، لیکن اذان کی بھی عظمت اس کا جواب تو دیں، آپ ٹی وی دیکھ رہے ہیں، کم از کم اذان کے وقت ٹی وی تو بند کر سکتے ہیں مگر اس کی آواز کو بھی کم نہیں کرتے،

جب بچہ بہت زیادہ روتا رہتا، رات میں اٹھ کر جاگتا اور گھر والوں کو سونے نہیں دیتا، مسجد کے امام (خلفو) پانی میں دم کرتے، کچھ دعائیں پڑھتے، اس سے گھر والوں کو کافی تسلی ہوتی،
پہلے بچہ کو جھولنے کے لئے گہوارہ تھا، جھولا جھولتے تھے، اب گہوارے نہیں ہیں، گہوارہ جھولتے وقت لوریاں گائی جاتیں،

لا اله الا الله محمد رسول الله حسبي ربي جل الله ما في قلبي غير الله نور محمد صلى الله لا اله الا الله

چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی یہ زبانی یاد تھے
یوں تو ہر گھر میں مٹی کے برتنوں کا ہی رواج تھا، کھانا سالن سںب ان ہی میں پکتا تھا، آج مٹی کے برتن میوزیم میں ملیں گے،

ہفتہ میں ایک مرتبہ رشتہ دار کے بچے دادی یا نانی اماں کے گھر جمع ہوتے، مٹی کے چھوٹے برتن بچے لے کر کھانا اور سالن پکاتے، کچھ پتھر جمع کرکے اور کچھ لکڑی کی تیلیاں لے کر آگ جلاتے، سب مل کر کھانا کھاتے، گڑیا کی شادی کرتے،

وہ گڑیا کی شادی پہ لڑنا جھگڑنا
وہ جھولوں سے گرنا، وہ گر کے سنبھلنا
وہ بھی کیسا سُہانا دور تھا، بچپن لوٹ نہیں سکتا، خواہش تو یہی ہوتی ہے، بچپن کا یہ حسین دور واپس آجائے، ہم بھی منے منا بن جائیں
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹادو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

بچہ سات آٹھ سال کا ہوتا، ختنہ کی رسم ہوتی، بچہ کو پھول کا ہار پہنا کر گھمایا جاتا، ختنہ کوئی ڈاکٹر نہیں بلکہ نائی اس کام کو انجام دیتا، کلو اور اسماعیل حجام اس کام کو انجام دینے میں مشہور تھے، میٹھا چاول پکایا جاتا، کبھی ایک ساتھ تین چار بچوں کو حصیر پر لٹا دیا جاتا، وہ منظر بھی عجیب ہوتا بچوں کا رو رو کر برا حال ہوتا،

انجمن گراؤنڈ، برنی مٹی، محلہ کے درمیان لوگوری، گلی ڈنڈا، آنکھ مچولی، کبڈی، کھیلتے تھے، کسی کو چوٹ آتی، بچے گھبراتے، ادھر ادھر بھاگتے، کبھی کٹی کٹی بولتے، پھر ویسے ہی دوستی بھی ہوجاتی، جیپ خرچ کچھ ملتا دوستوں کو بھی حصہ ملتا، ساحل پر پک نک جاتے، ریت کے گھروندے بناتے، پھر اس کو توڑتے،

کبھی ریت کے اونچے ٹیلے پہ جانا
گھروندے بنانا، بنا کر مٹانا
وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی
وہ خوابوں کھلونوں کی جاگیر اپنی
نہ دنیا کا غم تھا، نہ رشتوں کے بندھن
بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانی

کتنا لطف اس زندگی میں تھا، بچپن کی زندگی سچی زندگی ہوتی ہے، آئینہ کی طرح دل صاف ہوتا ہے،
آج بچپن کے دوست ملتے ہیں، وہ اب دوست نہیں رہے، کتنے مرحوم ہوئے، کتنے زندہ ہیں، دولت نے دوستوں کو بانٹ دیا ہے، کوئی غریب ہے، کوئی امیر ہے، کوئی دیکھ کر بھی انجان بنتا ہے، اسکول کے ساتھی جو سالہاسال ساتھ رہے، اب سب اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں، زندگی کی اس دوڑ میں کوئی آگے ہے کوئی پیچھے ہے، کسی کو مڑ کر دیکھنے کی فرصت نہیں ہے، کہ کون کہاں ہے، وہ دوست کہاں ہیں، کبھی کسی کو سالہاسال کے بعد ملتے ہیں، شکل و صورت تبدیل ہوگئی ہے، زندگی کے اس سفر میں کسی کے بال سفید ہوگئے ہیں، کوئی باریش ہے، کسی کو پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے
اب بچپن کا وہ سنہرا دور ڈھونڈنے سے نہیں ملتا، وہ پیار وہ محبت وہ خالہ وہ پھوپھی وہ ممانی کہاں انھیں ڈھونڈیں،

یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

اسکول میں ماسٹر یا مولانا کے پاس ڈنڈا ہونا ضروری تھا، اس وقت پلاسٹک کی اسکیل نہیں تھی، لکڑی کی اسکیل تھی، ماسٹر صاحب کے ہاتھ لگ جاتی، ٹکڑے ہوجاتی، اس وقت ماسٹر یا مولانا کی کوئی شکایت نہیں کرسکتا تھا، بیگ نہیں رہتی تھی پلاسٹک کے تھیلے میں کتابیں لے کر اسکول جاتے،

اب بچے محلہ میں گھومتے نظر نہیں آتے، کھیل کا میدان خالی رہتا ہے، بچے ٹیوشن میں مصروف ہیں، موبائل میں ہیں، بچے روتے ہیں ماں موبائل حوالہ کرتی ہے، ماں بچے سب موبائل کی دنیا میں مگن ہیں
اداس پھرتا ہے محلے میں بارش کا پانی
کشتیاں بنانے والے موبائل لے کر بیٹھے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *


Next Post

جنازہ کی وین

مولانا سید زبیر مارکیٹ (کراولی نیوز بیرو) 11 سپٹمبر 2024 موجودہ زمانہ میں انسان کو دنیا میں ہر چیز کی سہولت حاصل ہے، پہلے یہ کبھی ممکن نہیں تھا، پہلے کنویں سے ڈول کھینچ کر پانی حاصل کرنا پڑتا تھا، اب اپ نے موٹر کا بٹن دبا دیا، پانی اپ […]

You May Like