بچے تعلیم اور اسکول

مولانا سید زبیر مارکیٹ (کروالی نیوز بیرو) 06 دسمبر 2024

آج کے دور میں تعلیم کی بڑی اہمیت ہے، ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بچہ اعلی ترین تعلیم حاصل کرے، والدین اپنی ساری زندگی کی تگ و دو سکھ اور چین بچوں کی تعلیم کے لئے لٹا دیتے ہیں، اور اس کے خاطر اپنی اولاد کی تعلیم کے لئے اچھے سے اچھے اسکول میں داخلہ کروا دیتے ہیں، غریب ترین لوگ بھی اپنے بچوں کو تعلیم سے محروم کرنا نہیں چاہتے

آج سے کچھ سال پہلے اسکولوں کی بے حد کمی تھی، اور تعلیم کی اہمیت بھی کم تھی، اگر کسی نے SLC تک تعلیم حاصل کی، اسے تعلیم یافتہ سمجھا جاتا تھا، لیکن اب اسکولوں میں مقابلہ جاری ہے، اور ہر اسکول کی یہی کوشش ہوتی ہے، کہ ان کے اسکولوں میں طلبہ کا زیادہ داخلہ ہو، طلبہ و طالبات کے لئے ہر اسکول اپنے تعلیمی معیار کے علاوہ انفرا اسٹرکچر، یونیفارم، سیٹنگ ایرجمنٹ، جاذب نظر بناتا ہے، اور فیس بھی اسی مناسبت سے وصول کرتا ہے، عام بچے ہر اسکولوں میں داخلہ نہیں لے سکتے، ہر اسکول کی فیس کا معیار جدا جدا ہے، انگلش میڈیم پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے اگر اردو میڈیم ہے تو وہ غریبوں کے کھاتہ میں آتا ہے،

اچھے اور معیاری اسکولوں کی موجودگی کے باوجود بچے ٹیوشن بھی لیتے ہیں، صبح سات بجے سے لے کر رات کے اٹھ نو بجے تک تعلیمی میدان کے اطراف طلبہ گھومتے رہتے ہیں

اسکول بچوں کی درسگاہ ہوتی ہے، بچوں کا زیادہ وقت اپنے گھر کے بعد اسکول میں گزرتا ہے، ایک دن میں کم از کم سات یا اٹھ گھنٹے اسکول میں نکل جاتے ہیں،
اسکول کو مادر علمی بھی کہا جاتا ہے ماں کی اغوش میں جس طرح بچے کو راحت ملتی ہے اسی طرح یہ علم کی آغوش مادر ہے

مگر اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ بچے اسکول جانا پسند نہیں کرتے، اسکول جاتے ہیں تو ڈر اور خوف کے مارے جاتے ہیں، جہاں ہوم ورک کا لیٹ ہوکر جانے کا خوف وغیرہ انھیں ستائے رکھتا ہے،ہوم ورک نہ کرنے پر اور سوالات کا جواب نہ دینے پر انہیں ٹپوری کہا جاتا ہے ہوٹل میں کام ملے گا، دیکھو وہ بچہ کتنا ہوشیار ہے، اور تم تو نرے بدھو ہو، بچوں کو اسکول میں چھٹی ملنے پر خوشی محسوس ہوتی ہے، ایسے بھی اسکول موجود ہیں، جہاں بچے روزانہ جانے کے لئے بیتاب رہتے ہیں، اگر وہ بیمار بھی ہوں ناغہ برداشت نہیں کرتے، جب اساتذہ کا ریٹائرمنٹ ہو جاتا ہے یا اور کسی وجہ سے چلے جاتے ہیں بچے ان کو لپٹ لپٹ کر روتے ہیں
بڑے بچوں سے زیادہ چھوٹے بچوں پر تعلیم کا بوجھ دکھائی دیتا ہے، چاہے وہ تعلیم کا بوجھ ہو یا بستہ کا بوجھ ہو، عام طور پر بچے رٹ رٹا کر پڑھتے ہیں، بعض

ٹیچروں کو ایسے مضامین دیے جاتے ہیں جن کا وہ حق ادا نہیں کر سکتے، بچے بھی ان سے مطمئن نہیں ہوتے، چھوٹے بچے شکایت بھی نہیں کرسکتے، بچے جب اسکول سے گھر آتے ہیں بہت تھکے رہتے ہیں، بستہ کے بوجھ کی وجہ سے بھی کندھے اور ٹانگوں کے درد میں مبتلا رہتے ہیں، اسکول بیگ کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی پر اثر پڑ سکتا ہے، اسکول میں صاف پینے کے پانی کا بھی مسئلہ درپیش رہتا ہے، جس کی وجہ سے بچے پانی کی بوتل لے کر جانے کے لئے مجبور ہوتے ہیں

ٹیچرس کی کمزوریاں مینجمنٹ کو بھی معلوم نہیں ہوتی، اکثر مینجمنٹ کے بچے ان کے اسکولوں میں تعلیم حاصل نہیں کرتے، جس کی وجہ سے ان کو بچوں کے مسائل سے واقفیت حاصل نہیں ہوتی، اگر کوئی انسٹیٹیوشن بڑا ہے، تو نچلی سطح کلاس کے بچوں پر توجہ نہیں دی جاتی، جہاں سے فیس زیادہ وصول ہوتی ہے وہی قابلِ توجہ رہتا ہے

پہلے اسکولوں میں چل کر یا سائیکل پر بچے آتے تھے اب ہر بچہ اسکول بس پر آتا ہے یا بچوں کے گارڈینس انھیں اپنی گاڑی پر اسکول چھوڑتے ہیں، صبح کے اوقات کا نظارہ ہی عجیب رہتا ہے، مختلف اسکولوں کی بسیں روڈ پر دوڑتی دکھائی دیتی ہیں، بعض مرتبہ بچوں کو ناشتہ بھی نصیب نہیں ہوتا، اور جب وہ اسکول سے گھر لوٹتے ہیں، مؤذن عصر کی اذان دے رہا ہوتا ہے، اس کے بعد وہ کھانا کھاتے ہیں، وہ اسکول سے اس طرح آتے ہیں جیسے وہ قید خانے سے آئے ہوں
بچوں کو ہر ماہ امتحان کی ثیادی رہتی ہے، ایک ذہنی بوجھ ہوتا ہے، بچوں کے لئے والدین بھی اپنا وقت فارغ کرتے ہیں، اور وہ صبح و شام ان کے ساتھ لگے رہتے ہیں
اسکول میں بچوں کو دینیات کی تعلیم دی جاتی ہے دینیات میں جہاں دعائیں آور اذکار سکھائے جاتے ہیں وہیں اخلاقیات کی تعلیم بھی ضروری ہے، اساتذہ چھڑی تو اٹھا نہیں سکتے حکومت کی طرف سے اس پر پابندی ہے، ورنہ پہلے کے دور میں ماسٹروں کے ہاتھوں میں موٹی چھڑی رہتی تھی، یہ ایک خوش آئند پہلو پے، لیکن بعض اساتذہ بچوں سے ناراضگی پر گالیاں دیتے ہیں، بچوں کے اخلاق پر اس کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں

دوسری طرف اساتذہ کے احترام میں بہت کمی دکھائی دیتی ہے، والدین اگر ٹیچرس پر ناراض ہو جائیں بچوں کی موجودگی میں انھیں کھری کھری سناتے ہیں، اس کے غلط اثرات بچوں اور اساتذہ پر پڑٹے ہیں، ٹیچرس کو ایک نوکر کی طرح سمجھا جاتا ہے منیجمنٹ بھی انھیں وہ عزت نہیں دیتی جس کے وہ مستحق ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *


Next Post

بچے تعلیم اور اسکول

دوسری قسط سید زبیر مارکیٹ (کراولی نیوز بیرو ) 11 دسمبر 2024  بچوں کے لئے وقت کی تبدیلی ضروری ہے، صبح سویرے اسکول جانے کے وقت وہ چاق و چوبند نہیں رہتے، ناشتہ بھی کم نصیب ہوتا ہے، جھٹ پٹ ناشتہ کرنا پڑتا ہے، مائیں اپنے بچوں کو اسکول بس […]

You May Like