کراولی نیوز بیرو 26 اگست 2024 (سید محمد زبیر مارکیٹ)
بھٹکل میں انجمن حامی مسلمین کی طرف سے اطراف و اکناف کی طالبات کی سہولت کو ملحوظ رکھتے ہوئے خصوصی ہاسٹل کی سہولت انجمن حفصہ کامپلکس بالمقابل قدیم کچہری پہلے سے تھی لیکن اب اس سہولت کی بڑہتی ہوئی مانگ کے مدنظر مخصوص منظم علحیدہ عمارت کی بنیاد ڈالی گئی ہے۔ اس ہاسٹل کے قیام کے لئے ذمہ داران قوم نے چند جگہوں کی تجاویز انتظامیہ کے سامنے رکھیں جن میں سے ہر تجویز پر غور و فکر کے بعد ساگر روڈ پر واقع صدیقہ ارشاد صاحب کی عنایت کردہ زمین پر تعمیر کرنا طئے پایا۔
جب سے حجاب کا سلگتا ہوا معاملہ سامنے آیا ہے، مسلم طالبات کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے، وہ کہاں تعلیم حاصل کرے، کہاں نہ کرے، کالجوں میں انھیں حجاب کے بغیر جانا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے چھیڑ خانی کا ہر وقت اندیشہ رہتا ہے، ملک میں مسلم کالجوں کی کمی ہے، مینگلور سے لے کر کاروار تک دیکھا جائے بھٹکل ہی وہ شہر ہے جہاں حجاب کے ساتھ یوم الجمعہ کی عظمت برقرار رکھتے ہوئے تعلیم حاصل کرنے کی سہولت حاصل ہے، یہاں تک کہ انجمن گرلز کالج میں غیر مسلم طالبات اپنے تحفظ کے لئے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں، ان کی کالجوں میں مخلوط تعلیم ہونے کی وجہ سے اپنی لڑکیوں کو انجمن میں بھیجتے ہیں مخلوط تعلیم اور بے حجابی کی وجہ سے کتنی مسلم خواتین غیر مسلموں سے شادی کر رہی ہیں، اور بڑی تعداد میں مرتد ہو رہی ہیں، آخر اس کے ذمہ دار کون ہیں، امت مسلمہ کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے
لڑکوں کے مقابلہ میں لڑکیاں اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں، مگر انھیں اس کے لئے مواقع میسر نہیں آتے یا تو والدین ان کی جلدی شادی کردیتے ہیں جس کی وجہ سے تعلیم کی خواہش رکھنے کے باوجود وہ تعلیم سے محروم ہوجاتی ہیں چونکہ کالج شہر میں ہوتے ہیں یا مخلوط نظام تعلیم ہوتا ہے اس وجہ سے بھی والدین اپنی بچیوں کی عزت و عصمت کی حفاظت کی خاطر انھیں کالج میں بھیجنے سے گریز کرتے ہیں لیکن جب انھیں اطمینان ہو کہ ان کی عزت و عصمت کو کوئی خطرہ نہیں ہے وہ اپنی بچیوں کو ایسی تعلیم گاہوں میں بھیجنے کے لئے راضی ہوتے ہیں تاکہ ان کی بیٹی تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ سکے
جب سے حجاب پر پابندی کا معاملہ درپیش ہے طالبات بڑی مشکل میں گھری ہیں وہ کیا کرے کیا نہ کرے برقعہ نکال کر تعلیم حاصل کرے یا تعلیم کو خیر باد کہہ کر گھر میں بیٹھے اور گریجویشن کے خواب دیکھنا چھوڑ دے، اگر وہ شہر کے ماحول میں کالج میں داخلہ لیتی ہیں اور حجاب سے دستبردار ہو جاتی ہیں تو وہ تعلیم تو حاصل کر پائیں گی لیکن اخلاقی گراوٹ میں مبتلا ہو جائیں گی، لیکن وہ ان حالات کو دیکھ کر تعلیم حاصل نہ کرے تو سماج پر بوجھ ہوں گی، بیوہ مطلقہ یا بوڑھے والدین کی کفالت کی صورت میں اسے بھیگ مانگنا پڑے گا، یا کسی گھر میں برتن مانجھنے کا کام کرنا پڑے گا، ایسی صورتحال میں وہ اپنی اولاد کی کس طرح تربیت کر سکتی ہے، ایک تعلیم یافتہ شوہر تعلیم یافتہ بیوی چاہتا ہے
بینگلور میں بھٹکل و اطراف بھٹکل طلبہ کے لئے ہاسٹل قائم کیا گیا ہے، جس سے ہماری قوم کو مختلف فیلڈ کے ماہر مل رہے ہیں، اور یہاں ان کی نگرانی بھی ہورہی ہے، وہ اگر اپنے طور پر آزاد ہوتے، معاشرے میں اس کی وجہ سے برائی پھیلنے کے امکانات زیادہ تھے، مگر یحییٰ میموریل ہاسٹل کی وجہ سے والدین کو بہت اطمینان ہے، اسی طرح بینگلور میں ہماری لڑکیاں بھی مختلف علوم وفنون حاصل کر رہی ہیں، وہ اپنے طور پر وہاں قیام کرتی ہیں، اگر لڑکیوں کے لئے بھی ایسا کوئی بند و بست کیا جائے وہ بھی یکسوئی کے ساتھ تعلیم حاصل کریں گی، اور نگرانی میں رہیں گی
حجاب پر تنازعہ آج سے تین سال قبل 28 دسمبر 2021 کو شروع ہوا، جب کہ اڈپی کی پری یونیورسٹی گورنمنٹ کالج میں 6 مسلم طالبات حجاب پہن کر آئیں اور یہ ان کا معمول تھا، کالج کی طرف سے حجاب ہٹانے کو کبھی نہیں کہا گیا تھا، مگر بعض فرقہ پرستوں کی جانب سے کشیدگی پیدا کرنا تھی،
بہرحال اس واقعہ کے بعد مسلم طالبات کے لئے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے، کہ وہ حجاب کے بغیر تعلیم حاصل کرے یا وہ تعلیم سے محروم رہ جائے، ماں کی گود ہی پہلا مدرسہ ہے، اگر مائیں تعلیم یافتہ ہوں گی، اولاد بھی تعلیم یافتہ ہوں گی، حجاب کی کشمکش کی وجہ سے اڈپی کنداپور اور بیندور کی 40 طالبات نے امتحان نہیں دیا تھا، اب مسلم طالبات جو حجاب کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں، ان کے لئے حجاب کے ساتھ تعلیم حاصل کرنا دشوار ہوگیا ہے اگر وہ گورنمنٹ یا پرائیوٹ کالج میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے، تو انھیں برقعہ نکال کر آنا پڑے گا، ورنہ تعلیم چھوڑنا پڑے گی، دشمن یہی چاہتا ہے کہ مسلم طلبہ و طالبات تعلیم سے محروم رہ جائیں،
ضرورت اس بات کی ہے مسلمان خود سے تعلیمی ادارے قائم کریں، جہاں طالبات کو حجاب کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کی سہولت حاصل ہو، اور قوم نوائط کو انجمن کی شکل میں یہ نعمت حاصل ہے ۔
اڈپی کے واقعہ کے بعد بھٹکل کے اطراف و اکناف کی طالبات کے تحفظ کے لئے اگر کوئی تعلیمی ادارہ ہے اور جس کی جانب ہر ایک کی نظریں دوڑ رہی ہیں، وہ ہمارا شہر بھٹکل ہے ،ہر ایک کی نظریں بھٹکل کی جانب مرکوز ہیں، یہاں اسلامی ماحول ہے، ہاسٹل قائم نہ ہونے کی صورت میں لڑکیاں اپنے طور پر کرایہ کے مکان لے کر رہائش حاصل کرتی ہیں، مگر لڑکیوں کے والدین اس کے لئے آمادہ نہیں ہوتے، وہ اپنی جوان لڑکی کی عزت و عصمت کے معاملہ میں حساس ہوتے ہیں، ان در پیش حالات کی وجہ سے اطراف و اکناف سے اس کا مطالبہ بھی ہو رہا ہے کہ طالبات کے روشن مستقبل کے خاطر ان بچیوں کے لئے ہاسٹل کا انتظام کیا جائے، انجمن کے سوسال ہو چکے ہیں، انجمن نے اس کا فیصلہ کیا ہے کہ اطراف و اکناف کی طالبات اس سے فائدہ اٹھائے، ظاہر بات ہے بھٹکل میں تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی حساسیت پائی جاتی ہے، اس ہاسٹل میں تربیت کا نظم بھی ہونا چاہیے، اس پر نگرانی ہو، پانچوں وقت کی نمازیں پابندی کے ساتھ ادا کی جائیں، برقعہ پوش خاتون کو ہی ہاسٹل میں جگہ دی جائے، یہاں طالبات رہنے سے فائدہ یہ ہوگا آس پاس کے علاقوں میں شرکیہ عقائد بدعات و خرافات ہیں، یہاں ان کی اصلاح کا کام بھی ہوسکتا ہے
ہندوستان کے مختلف علاقوں میں دینی درسگاہوں میں بھی طالبات کے لئے ہاسٹل کا انتظام کیا گیا ہے ہمارے شہر میں مدرسہ تحفیظ القرآن تینگنگنڈی ہے گزشتہ پچیس سال سے طالبات کے لئے یہاں ہاسٹل قائم ہے، کیرالہ ممبئی گوا کرناٹک کے مختلف علاقوں سے طالبات نے حفظ اور دینی تعلیم حاصل کی ہے
اس کے علاوہ ہمارے پڑوس علاقہ کلور اور شاہین بیدر میں بھی طلبہ و طالبات کے لئے ہاسٹل قائم کیا گیا ہے ۔
لڑکیاں تعلیم کے میدان میں لڑکوں کے مقابلہ میں کافی آگے ہیں، گزشتہ کئی سالوں سے رابطہ ایوارڈ حاصل کرنے والی لڑکیاں ہیں، دس ایوارڈ میں سے دو لڑکے بمشکل ایوارڈ حاصل کرتے ہیں، لیکن یہ طالبات تعلیم حاصل کرنے کے بعد گھر گرہستی کے کاموں میں لگ جاتی ہیں، معاشرے کو ان سے جو فائدہ اٹھانا چاہیے، وہ نہیں ہو پا رہا ہے، جب اڈپی میں حجاب کا مسئلہ پیدا ہوا، تو کئی اخبار کے نمائندے مینگلور، اڈپی اور بھٹکل آکر مسلم طالبات سے سوالات کئے، طالبات نے ان کو جس انداز میں جواب دیا، وہ لاجواب ہوئے، خصوصی طور پر بھٹکل کا انھوں نے ذکر کیا، یہاں کی طالبات کے جوابات نے ہمیں حیران کر دیا
ہاسٹل کے بہت سے فائدے بھی ہیں، اور نقصان بھی ہیں، جیسا کہ ہر چیز کے منفی و مثبت دونوں پہلو ہوتے ہیں، اس میں تربیتی پہلو غالب ہونا چاہیے،
یہ ایک مجبوری ہے اور وقت کی ضرورت ہے، دوسرے لادینی اور سیکولر اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے سے بہتر ہے، ان کے لئے اقامت گاہ کا دینی نقطہ نظر سے انتظام کیا جائے،