رواداری اور اسلامی تعلیمات

سید محمد زبیر مارکیٹ بھٹکل (کراولی نیوز بیرو ) 14اگست 2024

اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا اور مسلم گھرانے میں پیدا کیا، اگر اللہ چاہتا تو کسی بت پرست مشرک کے گھر بھی پیدا کر سکتا تھا، آگر ایسا ہوتا تو یہ ہمارے لئے سخت امتحان ہوتا، کہ ہم اس کے دین کو قبول کرتے یا نہیں کرتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس آزمائش سے بچا لیا، اور دین اسلام کی نعمت ہم کو گھر بیٹھے ہی عطا کی، ہم نے جب آنکھ کھولی اپنے آپ کو ایک مسلمان کے گھر میں موجود پایا، یہ آللہ کا کتنا بڑا احسان ہے، جس احسان کا شکر کبھی بھی ہم ادا نہیں کرسکتے، جو ہمارے پروردگار نے ہمارے ساتھ کیا ورنہ اگر کسی کافر کے گھر میں ہم پیدا ہوتے، تو کسی مندر کی گھنٹی بجا رہے ہوتے، کسی گرجا گھر یا کسی گردوارہ میں عبادت کر رہے ہوتے، اس کا یہ بھی احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا فرمایا، ہم اپنے خالق و مالک کا کہاں تک شکر ادا کریں
لیکن بہت سے مسلمان برائے نام مسلمان ہیں، صرف ختنہ کرنے سے کیا کوئی مسلمان ہوتا ہے؟ کیا مسلمان کسی مخصوص لباس یا وضع قطع کا نام ہے؟ کیا محض مسلم گھرانوں میں پیدا ہونے سے کوئی مسلمان بنتا ہے؟ جس طرح کوئی پیدائشی ہندو یا کوئی پیدائشی عیسائی ہوتا ہے؟
مسلمان علم و عمل کا نام ہے شعوری طور پر مسلمان ہوسکتا ہے، کوئی یہی نہیں جانتا ہو، اسلام کیا ہے کن باتوں پر عمل کرنا چاہیے اور کن چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے، جو یہی ہی نہیں جانتا ہو وہ کیسے مسلمان ہوسکتا ہے؟ موجودہ دور میں جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں، تو ہم کو ہر جگہ یہی کیفیت نظر آتی ہے، معاشرے میں وہ تمام اخلاقی خرابیاں موجودہ ہیں، جو مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں کرتی
کتنے مسلمان ایسے ہیں جن کا نام مسلمان ہے، لیکن وہ ہندو رسم ورواج میں مبتلا ہیں، مگر وہ پھر بھی مسلمان ہیں، اس لئے کہ ان کا نام مسلمان ہے، بنیادی طور پر مسلم اور غیر مسلم کے درمیان جو فرق ہے وہ عقیدہ کا ہے، توحید کیا ہے اور شرک کیا ہے اس میں فرق سمجھنا چاہیے، آپ دیکھتے ہیں کتنے مسلمان ہیں جو اس کے درمیان کوئی فرق محسوس نہیں کرتے، محض چند رسومات کی ادائیگی کا نام مسلمان رہ گیا ہے، یہاں تک کہ بہت سارے مسلمان غیر مسلموں سے شادی بھی کرتے ہیں،
بالی ووڈ کے فلمی ستارے، اداکار، سیاست دان روشن خیال ادیب ہیں جو بین المذاھب شادیاں کرتے ہیں، جن کا مذہب انساانیت ہے، شوہر مسلمان ہے اور بیوی ہندو یا عیسائی ہے، مگر پھر بھی وہ مسلمان ہیں، اور مسلمان ان فلمی ستاروں کو اپنا ہیرو تسلیم کرتے ہیں
مولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی علیہ الرحمہ نے ان اسکولس سے اپنے بچوں کو نکال دینے کی ہدایت دی تھی جہاں سرسوتی وندنا پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ہمارے بچے علم سے محروم رہ جاتے ہیں تو رہ جائیں، اور ہم اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لینا گوارہ کرلیں گے، مگر ایمان کا سودا نہیں کرسکتے،
البتہ اسلام نے سارے انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، ان کے کلچر کو اختیار کرنا الگ ہے اور حسن سلوک کا معاملہ الگ ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے ہدایا قبول کئے ہیں، اور غیر مسلموں کی تیمارداری فرمائی ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلم وفود کا مسجد نبوی میں استقبال کرتے تھے ان کے قیام کا بھی انتظام تھا انھیں خوش آمدید کہتے تھے نجران کے عیسائیوں کا وفد جب خدمت اقدس آیا، وفد نے مسجد نبوی میں قیام کیا
ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ جب وہ کافر تھے، گرفتار کئے گئے مسجد نبوی میں تین دن تک قیدی کے طور پر انھیں رکھا گیا، اس کے بعد وہ مسلمان ہوئے
جسٹس ریٹائرڈ مولانا مفتی تقی عثمانی ایک محقق اور معروف عالم دین کی تحریر پیش کر رہا ہوں
مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
ـ’’ اسلام نے دوسرے مذاہب کے پیروؤں کے ساتھ رواداری کی بڑی فراخدلی کے ساتھ تعلیم دی ہے۔ خاص طور پر جو غیر مسلم کسی مسلمان ریاست کے باشندے ہوں، ان کی جان و مال، عزت و آبرو اور حقوق کے تحفظ کو اسلامی ریاست کی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ اس بات کی پوری رعایت رکھی گئی ہے کہ انہیں نہ صرف اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہو، بلکہ انہیں روزگار، تعلیم اور حصول انصاف میں برابر کے مواقع حاصل ہوں، اُن کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ رکھا جائے، اور ان کی دل آزاری سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ ہمارے فقہاء کرام نے یہاں تک لکھا ہے کہ ’’ اگر کسی شخص نے کسی یہودی یا آتش پرست کو اے کافر! کہہ کر خطاب کیا جس سے اس کی دل آزاری ہوئی، تو ایسا خطاب کرنے والا گنہگار ہو گا‘‘
(فتاوی عالمگیر یہ ص ۵۹ ج ۵)۔
قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ
اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہےاور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 60 الممتحنة آیت 8
اسی بنیاد پر احادیث کا ذخیرہ اور اسلامی فقہ اور تاریخ کی کتابیں غیر مسلم شہریوں کے ساتھ نہ صرف رواداری، بلکہ حسن سلوک اور برابر کے انسانی حقوق کی تاکید و ترغیب سے بھری ہوئی ہیں (میں نے اپنی کتاب ’’اسلام اور سیاسی نظریات‘‘ میں ان تعلیمات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے)۔ لیکن رواداری، حسن سلوک اور انصاف کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مذاہب کے درمیان فرق اور امتیاز ہی کو مٹا دیا جائے، اور مسلمان رواداری کے جوش میں غیر مسلموں کے عقیدہ و مذہب ہی کی تائید شروع کر دیں، یا اس عقیدہ پر مبنی مذہبی تقریبات میں شریک ہو کر یا ان کے مذہبی شعائر کو اپنا کر ان کے مذہب کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ قرآن کریم نے اس سلسلے میں جو واضح طرز عمل بتایا ہے وہ یہ ہے کہ ’’ تمہارے لیے تمہارا دین ہے، اور میرے لیے میرا دین‘‘۔ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو شائستگی کے دائرے میں اپنے مذہبی تہوار منانے کا پورا حق حاصل ہے، اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میں نہ خود کوئی رکاوٹ ڈالے، نہ دوسروں کو ڈالنے دے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ان کی وہ مذہبی رسمیں جو ان کے عقیدے پر مبنی ہیں ، ان میں کوئی مسلمان انہی کے ایک فرد کی طرح حصہ لینا شروع کر دے۔ (مفتی تقی عثمانی)
فقہاء نے غیر مسلموں کے تہواروں اور تقریبات میں “دکان یا سبیلیں وغیرہ لگانے اور تجارتی سطح پر منافع حاصل کرنے کی اجازت دی ہے”
( مختصراقتضا ء الصراط المستقیم ص، 171)
بعض مسلمان رواداری اور یکجہتی کے اظہار کے لئے ماتھے پر تلک لگاتے ہیں ان کے مذہبی پروگرام میں شریک ہوکر کیک کاٹتے ہیں اور شمعیں روشن کرتے ہیں اسے مداہنت کہتے ہیں دین کے معاملہ میں مصلحت پسندی کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی اپنائی جائے یہ سراسر غلط ہے مندروں گرجا گھروں اور گردواروں وغیرہ میں دعوت دین کے لئے یا خیر سگالی کے لئے جاسکتے ہیں لیکن ان کی مذہبی شعائر میں شریک ہو کر فراخ دلی کا ثبوت نہیں دے سکتے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *


Next Post

اپنے بچوں کی حفاظت کریں

سید محمد زبیر مارکیٹ بھٹکل (کراولی نیوز بیرو 19اگست 2024 بروز پیر) اللہ تعالی فرماتا ہے زنا کے قریب نہ پھٹکو، وہ بہت بُرا فعل اور بڑا ہی بُرا راستہ ہے (الإسراء آیت 32) آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، اور زبان کا زنا بولنا، اوردل کا زنا یہ ہے کہ […]

You May Like