معاشرے کا بگاڑ اور ہماری ذمہ داری

سید زبیر مارکیٹ ( کروالی نیوز بیرو ) 12 اکتوبر 2024

معاشرہ کا بگاڑ اور ہماری ذمہ داری

ایک ایسی بستی ہے جس بستی کے لوگ قے، متلی، پیٹ میں درد، پیشاب میں خون، ٹائیفائڈ، بواسیر، ملیریا، ہیضہ وغیرہ بیماری میں مبتلا ہیں، ہر چہار جانب بیماریوں کا ڈیرہ ہے، ہسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں، معالج اور ماہر ڈاکٹر بہت ہیں، مگر بیماریاں رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں

 

ڈاکٹر حضرات بتا رہے ہیں کہ ہمارے شہر میں ایسے ایسے خطرناک امراض پائے جاتے ہیں، جو سخت جان لیوا ہیں، شہر میں بڑے ہسپتالوں کی موجودگی میں بیماریوں نے یہاں پر ڈیرے کیوں ڈالے ہوئے ہیں؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟ جب کہ یہاں ماہر ڈاکٹر موجود ہیں، ہر طرح کی دوائیں بھی دستیاب ہیں، پھر وجہ کیا ہے کہ نئی نئی بیماریاں یہاں جنم لے رہی ہیں، اور بیماریاں ختم ہونے کے بجائے اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، کیا ڈاکٹر برابر علاج نہیں کر رہے ہیں یا دوائیں ہیں،جو اثر نہیں کر رہی ہیں

 

آپ کیا کہیں گے؟ اس بستی کے بارے میں جہاں ہر نکڑ پر پولیس تعینات ہے ہر طرف سی سی کیمرے لگے ہوئے ہیں، مگر پھر بھی چوری اور ڈاکہ زنی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے، سب کو چکمہ دے کر چور اور ڈاکو لوگوں کا مال لوٹ رہے ہیں، ہر دکاندار اور مالک مکان ان چوروں اور بدمعاشوں سے پریشان ہے، جنہوں نے شہریوں کی نیند اڑا رکھی ہے، آپ سوال کرسکتے ہیں پولیس کیا کر رہی ہے، کیا چور لٹیروں اور پولیس میں کہیں گٹھ جوڑ تو نہیں پے ؟

 

اسی طرح ایک ایسی بستی کا حال ہے، یہ ایک مثالی بستی ہے، ہزاروں علماء اور حفاظ اس شہر سے وابستہ ہیں، مدارس کی کثرت ہے، مساجد سے یہ بستی آباد ہے، ہر گھر میں کئی کئی مساجد سے بیک وقت اذان کی آواز کانوں سے ٹکراتی ہے، ہر مسجد میں شبینہ مکاتب ہیں، مردوں اور خواتین کے الگ الگ دینی مدارس ہیں، ہر عورت برقعہ پوش ہے، کسی میں یہ ہمت اور مجال نہیں ہے کہ وہ برقعہ کے بغیر گھر سے باہر نکل سکے،

 

پھر یہاں پر برائیوں کا یہ بڑھتا ہوا سیلاب کیوں ہے؟ نت نئی بد اخلاقی بے حیائی نشہ بازی بے ایمانی نے اس شہر میں کیسے ڈیرہ جما لیا ہے، علماء پریشان ہیں عمائدین شہر متفکر ہیں، مسئلہ کا حل سمجھ میں نہیں آتا، اس بیماری میں مبتلا معاشرے کے پسماندہ خاندان کے افراد نہیں، صاحب حیثیت اور شریف گھرانوں کے جگر کے ٹکڑے ان بیماریوں میں مبتلا ہیں، والدین اپنے بچوں کو لاڈ و پیار سے پالتے ہیں، ان کی ہر ضرورت پوری کرتے ہیں، پھر یہی بچے اپنے گندے کارناموں سے والدین کا نام روشن کرتے ہیں، کہ انھیں سر چھپانے کے لئے کہیں جگہ نہیں ملتی، ہم اپنی بستی کی تعریف سننے کے عادی ہوگئے ہیں، مگر گھر کا بھیدی ہی اپنے گھر کے حالات سے بخوبی واقف ہے، اب تو تقریریں وائرل ہو رہی ہیں کہ ہماری نوجوان لڑکیوں کے چال چلن کیسے ہیں، کس طرح وہ جھانسا دیتی ہیں، گندی ویڈیو وائرل کرنے اور بلیک میل کرنے کی دھمکی دیتی ہیں، اور لاکھوں روپے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، تصویر کے اس دوہرے رخ سے اہل فکر کا پریشان ہونا فطری بات ہے،

 

بوائز ہاسٹل طلبہ کی تربیت کے لئے رکھا گیا تھا، مگر ان کے کمروں سے حقہ کا دھواں نکل رہا ہے، گانے گائے جا رہے ہیں، بچے پڑھنے لکھنے کے بجائے انجوائے کر رہے ہیں، حقہ اور شیشہ نوشی جس میں نشہ ہوتا ہے ہمارے نوجوانوں کو اس کی لت لگ چکی ہے، پک نک کے نام پر اجنبی طلبہ و طالبات سیر و تفریح کے لئے جا رہے ہیں، اور انتظامیہ بھی اس سے بے خبر رہتی ہے، اور انھیں جوابدہ ہونا پڑتا ہے، والدین کو معلوم نہیں ہے کہ ان کے لاڈلے کیا کیا گل کھلا رہے ہیں،

 

معاشرہ بگاڑ کی طرف جا رہا ہے، دلدل میں پھنسا جا رہا ہے، نوجوانوں کو نشہ کی لت لگ چکی ہے، رات میں جب سب نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، لڑکیاں موبائل میں اپنے بوائز فرینڈز کے ساتھ کھسر پھسر کرتی رہتی ہیں، لڑکے اور لڑکیاں رشتوں کا انتخاب اپنے طور پر کرتی ہیں، کتنے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، کتنی طلاق اور خلع کے واقعات پیش آتے ہیں، خاندان بکھر جاتا ہے،

 

جن گھروں سے کبھی قرآن کی تلاوت کی آوازیں آتی تھیں، جہاں شرم و حیا کی نازک پریاں رہتی تھیں، آج اس گھر کی نازنین بازار ہوس کی خریدار کیوں بن رہیں ہیں، کیوں صرف چند پیسوں کی خاطر اپنی عفت کا سودا کر رہی ہیں؟ جس کی وجہ سے طلاق و خلع کے بے شمار واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، گھر برباد ہورہے ہیں، بچے والدین کے پیار سے محروم ہو رہے ہیں

 

اللہ کا فضل ہے علماء کرام ہر خاندان میں موجود ہیں مساجد قال اللہ و قال الرسول سے گونجتی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ صرف برائیاں ہی موجود ہیں، صالحین و صالحات سے بھی یہ بستی آباد ہے، اللہ کے نیک بندے موجود ہیں، نیکیوں کا بھی چرچا ہونا چاہیے، صرف برائیوں کے تذکرہ سے معاشرے کا سدھار ممکن نہیں ہے، خوبیوں کے تذکرے ہوں، الحمدللہ معاشرے میں کافی خوبیاں بھی موجود ہیں، اس بستی نے کتنی بستیوں کے جاہلانہ رسوم و رواج کو تبدیل کردیا، جن علاقوں میں قرآن پڑھنا نہیں آتا تھا انھیں حفاظ قرآن اور علمائے کرام دئیے، بدعات و خرافات کا قلع قمع کیا، نوجوانوں کی زندگیاں تبدیل کردیں، کچھ برائیاں ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ ساری آبادی اس میں ملوث ہے آبادی کی اکثریت خدا سے اپنا رشتہ جوڑے ہوئے ہے

 

معاشرہ کی تعمیر میں اہم کردار خواتین کا ہوتا ہے، ایک عورت کے بگڑ جانے سے پورا خاندان بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے، اور ایک عورت سماج کو تبدیل کر سکتی ہے،

لیکن خواتین اپنی اس ذمہ داری کو ادا نہیں کر رہیں ہیں، سینکڑوں عالمات ہونے کے باوجود خواتین میں خطاب کے لئے مردوں کی ضرورت پڑتی ہے، خواتین کے اندر دعوتی جذبہ پیدا کرنے کی بے حد ضرورت ہے، تاکہ وہ نصف انسانیت کی اصلاح کرے، خواتین برائیوں کی طرف دعوت دے رہیں ہیں لیکن نیک خواتین اپنے خول میں بند ہیں، جس طرح مردوں کے ذمہ امر بالمعروف ونهي عن المنكر فرض ہے اسی طرح یہ خواتین کے ذمہ بھی فرض ہے

سید محمد زبیر مارکیٹ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *


Next Post

رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت اور ہماری ذمہ داری

مولانا سید زبیر مارکیٹ (کراولی نیوز بیرو ) 20 اکتوبر 2024 کہتے ہیں ایک شخص کا سامان چور لے کر تیزی سے بھاگا، وہاں پر تیز دوڑنے والا ایک نوجوان بھی موجود تھا، اس شخص نے کہا دیکھو میرا مال چور لے کر بھاگ رہا ہے، میں اس کا پیچھا […]

You May Like