بچے تعلیم اور اسکول

دوسری قسط

سید زبیر مارکیٹ (کراولی نیوز بیرو ) 11 دسمبر 2024  بچوں کے لئے وقت کی تبدیلی ضروری ہے، صبح سویرے اسکول جانے کے وقت وہ چاق و چوبند نہیں رہتے، ناشتہ بھی کم نصیب ہوتا ہے، جھٹ پٹ ناشتہ کرنا پڑتا ہے، مائیں اپنے بچوں کو اسکول بس آنے کے انتظار میں گیٹ کے پاس ناشتہ کھلاتی رہتی ہیں کبھی ایک دو لقمہ کھاتے ہی اسکول بس کا ہارن بجنا شروع ہوتا ہے، کئی اسکول کی بسیں آتی جاتی رہتی ہیں، ہر بس کے ہارن پر اپنی بس کا گمان ہوتا ہے

بچوں پر زبانوں کا بوجھ بھی زیادہ نہیں ہونا چاہیے بعض اسکولوں میں اردو، انگریزی، کنڑی، ہندی زبانوں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے، چھوٹے بچوں کے لئے دو زبانیں کافی ہیں، آپ دیکھیں گے، کنڑی زبان اور ہندی زبان کس کو آتی ہے، سالہاسال سے یہاں پر یہ زبانیں پڑھائی جا رہی ہیں مگر بہت ہی کم طلبہ ان پر قدرت رکھتے ہیں محض سرکار کی خانہ پری کے لئے زبانیں پڑھائی جاتی ہیں،

عام طور پر انتظامیہ اور پرنسپل میں تال میل میں کمی ہوتی ہے، پرنسپل یا ہیڈ مسٹرس کو کام کرنے میں آزادی ہونی چاہیے، اگر انتظامیہ اس کے کاموں میں مداخلت کرتی ہے، وہ اپنے تجربات کی روشنی میں کام انجام نہیں دے سکتا ہے، وہ صرف ان ہی کاموں کو انجام دے گا، جس کو انتظامیہ کرنے کے لئے کہتی ہے، بورڈ کے سکریٹری وہ پرنسپل کو مشورہ دے سکتے ہیں، مگر مداخلت نہیں کر سکتے، اس لئے وہ اپنی صوابدید پر کوئی کام انجام نہیں دے سکتا ہے، اس وجہ سے ادارے ترقی نہیں کر پاتے ہیں، تعلیمی اداروں میں پرنسپل یا ہیڈ مسٹرس کو مکمل اختیارات دینے چاہیے، اگر اس پر کنٹرول کرنے کی کوشش کریں گے، تو وہ آزادی سے کوئی کام نہیں کر سکے گا البتہ انتظامیہ اس کا جائزہ لے گی

تعلیمی ادارے کے لئے ایک اچھے پرنسپل کی ضرورت ہے، اس کی تنخواہ کا موازنہ ٹیچرس سے نہیں کیا جاسکتا، وہ تعلیمی ادارہ کا سربراہ ہوتا ہے، بہت سے غیر ضروری اخراجات پر کنٹرول بھی کرتا ہے، عام طور پر پرنسپل کسی سینیر ٹیچر کو رکھا جاتا ہے، وہ چونکہ اسی ادارے سے وابستہ ہوتا ہے، کوئی نئی تبدیلی نہیں لا سکتا، اس لئے ایک ماہر تجربہ کار کو پرنسپل کے لئے حاصل کرنا چاہیئے،

تعلیمی اداروں کی انتظامیہ میں تعلیم یافتہ حضرات ہوں، غیر تعلیم یافتہ حضرات ووٹ کا حصہ بن سکتے ہیں اور بسا اوقات تعلیمی ادارے کی ترقی کے لئے رکاوٹ بھی بن سکتے ہیں، ممبر سازی میں تعلیمی قابلیت کو ملحوظ رکھا جائے، جمہوریت تعلیمی اداروں کے لئے کافی نقصان دہ ہے، اس کے لئے ہر خاص و عام کے لئے دروازے کھلتے ہیں، پھر گندی سیاست چلتی ہے، ادارے ترقی کے بجائے تنزل کی طرف چلے جاتے ہیں،
کوئی سونے کی دکان میں نقلی سونا بھی فروخت کے لئے رکھیں، تو اس دکان کی قدر و قیمت گھٹ جائے گی،اسی طرح انتظامیہ کا معاملہ ہے،

ہر طلبہ میں مختلف قابلیتیں ہوتی ہیں، ہر ایک میں یکساں قابلیت نہیں ہوتی ہے، کتنے بچوں کے اندر کافی ٹائلنٹ ہوتے ہیں، لوگوں کو ان کی قابلیت کی بنیاد پر ملازمت نہیں ملتی ہے، کتنے طلبہ ہیں جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش میں رہتے ہیں، مگر اکثر طلبہ کو اپنی تعلیم کی بنیاد پر روزی حاصل نہیں ہوتی ہے، بہت سے نوجوان اپنی ڈگری اپنی الماری میں رکھتے ہیں، اور نوکری دوسری کرتے ہیں، ہماری قوم کے نوجوانوں میں کافی ہنر ہیں، کوئی ٹیکنیل انسٹیٹیوٹ کی ضرورت ہے، ورنہ یہی نوجوان دس پندرہ ہزار ماہوار کے لئے کسی دکان کے ملازم بنتے ہیں، اور ان کی ساری زندگی ملازمت میں گزر جاتی ہے
ہمارے اور غیر مسلموں کے تعلیمی اداروں میں نمایاں فرق یہ ہے کہ ہمارے اسکولوں کے مقابلے میں برادران وطن کے اسکولوں میں ڈسپلن زیادہ دیکھنے کو مل رہا ہے

اور ہمارے تعلیمی اداروں میں اس کی بے حد کمی ہے
ضرورت اس بات کی ہے جو ہمارے تعلیمی اداروں سے جو فارغ ہو کر نکلیں وہ اخلاقی لحاظ سے بلند ہوں انسانوں کی خدمت کرنے والے ہوں ملت کا درد ان کے اندر موجود ہو، اپنے دین اور عقیدہ سے گہرا تعلق ہو، جس ادارے سے وہ فارغ ہو کر نکلیں اس ادارے کے بارے میں گہری محبت موجود ہو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *


Next Post

منصب کی خواہش

مولانا سید زبیر مارکیٹ (کراولی نیوز بیرو 20 دسمبر 2024) منصب کی خواہش ایک جان لیوا مرض ہے جب کسی شخص سے یہ عہدہ چپک جاتا ہے اس سے جان چھڑانی محال ہوجاتی ہے وہ اپنی گدی کو بچانے کے لئے کسی بھی حد کو پار کر سکتا ہے گروپ […]

You May Like