مولانا سید زبیر مارکیٹ (کراولی نیوز بیرو 20 دسمبر 2024)
منصب کی خواہش ایک جان لیوا مرض ہے جب کسی شخص سے یہ عہدہ چپک جاتا ہے اس سے جان چھڑانی محال ہوجاتی ہے وہ اپنی گدی کو بچانے کے لئے کسی بھی حد کو پار کر سکتا ہے گروپ بندی نجوی سازشیں عہدہ حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہیں یہ ایک عام سی بات ہوگئی ہے جب بھی آپ کسی منصب کے خواہشمند شخص سے سوال کریں گے وہ یہی کہے گا کہ مجھے عہدہ کی کوئی خواہش نہیں ہے میں تو مجبوری اور دباؤ سے اسے بادل ناخواستہ قبول کیا ہوں محض قوم کی خدمت پیش نظر ہے میرے لاکھ انکار کے باوجود میرے سر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس سے تو محض اس کا نفس ہی خوش ہوسکتا ہے نہ جانیں اس کو خاصل کرنے کے لئے کتنے گھروں کو دستک دینی پڑتی ہے کتنی فون کالیں جاتی ہیں خرید و فروخت ہوتی ہے نجوی ہوتا ہے سازشیں رچی جاتی ہیں اس کے باوجود یہی کہا جاتا ہے ہمیں عہدہ کی بالکل خواہش نہیں ہے ہم اس سے دور بھاگنا چاہتے تھے کوئی صدرِ تا زیست ہےاور کسی کو یہ نعمت جب سے ہوش سنبھالا میسر آگئی ہے اور اگر وہ منصب حاصل نہ کرے تو دوسروں پر بے جا الزامات لگائے ان کی ہتک عزت کرے جب سازشیں رچی جاتیں ہیں تو اس میں ہرشخص متحرک ہوتا ہے جو اب تک خراٹے لے رہا تھا اس میں ایک نئ زندگی آجاتی ہے یہ نئ زندگی کسی تعمیر کے لئے نہیں ہے بلکہ اس سے تخریب مقصود ہوتا ہے پہلے وہ میٹنگوں میں خال خال شریک ہوتا تھا لیکن اب شیطان نے اسے اپنا آلہ کار بنا لیا اب وہ سازشوں کے لئے نئی جتھہ بندی کرتا ہے جب وہ کسی آرگنائزیشن کا ممبر تھا تو میٹنگوں میں برائے نام شرکت رہتی تھی مصروفیت کی بات تھی ااب عہدہ کے لئے منتخب نہ ہونے پر متحرک ہوگیا ہے اسے منتخب کیوں نہیں کیا گیا میری خدمات کا ایک طویل سلسلہ ہے وہ گروپ بندی کرتا ہے پہلے اس کے پاس وقت نہیں تھا اب وقت ہی وقت ہے نام و نمود و شہرت کے لئے یہ مناصب حاصل کئے جاتے ہیں منصب نہ ملے بیمار پڑجائیں
آپؐ نے فرمایا: ’’ایک زمانہ آئے گا کہ تم لوگ امارت و سرداری کی تمنا کرو گے حالانکہ یہ قیامت کے دن ندامت کا سبب ہوگی‘‘(بخاری) اسلامی تعلیمات کی روشنی میں منصب و عہدے مانگنے کی چیز نہیں ہے آپ صلی اللہُ علیہ و سلم نے فرمایا
’کبھی امارت کی طلب نہ کرو۔ اگر تمھیں مانگنے سے ملے تو تم نفس کے پھندوں میں پھنس جاؤ گے اور اگر بے طلب ملے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھاری مدد ہوگی
کچھ لوگ ہیں جو کئ اداروں میں ممبر بننے کے خواہشمند رہتے ہیں اس کو حاصل کرنے کے لئے وہ ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتے ہیں اس کی وجہ سے نئے افراد اداروں میں جگہ نہیں پاسکتے ان کے لئے راستے مسدود ہوتے ہیں وہ کسی کو آگے بڑھنے نہیں دیتے اس لئے ادارے ترقی نہیں کرتے نئ سوچ اور نئے دماغ پر پابندی لگا دی جاتی ہے نتیجہ یہ کہ ان کی طرح ادارے بھی بوڑھے ہوتے جاتے ہیں جوان خون ہو تو دور شباب آئے گا تجربہ کاروں کی بھی ضرورت ہے لیکن نئ نسل کو بھی موقع دینا ہے دونوں کا امتزاج اداروں کی ترقی کے لئے ضروری ہے آپ صلی اللہُ علیہ و سلم نے فرمایا
’’جب کام نااہل کے سپرد کیا جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ (بخاری) کچھ لوگ کسی بھی آرگنائزیشن میں کھمبوں کی طرح ہوتے ہیں وہ کچھ بولتے ہی نہیں ہیں ان کا کام کسی کی رائے پر سر ہلانا ہوتا ہے عہدہ کی خواہش ایک ایسی بیماری ہے جس میں دنیاوی جاہ و منصب کے حامل افراد کے علاوہ منبر و محراب سے وابستہ افراد بھی اس دوڑ میں برابر شریک ہوتے ہیں
بلکہ یہ مرض دینی حلقوں میں عام ہوگیا ہے باپ کی جگہ پر بیٹے کے لئے گدی تیار کی جاتی ہے عہدہ و منصب میراث ہوگیا ہے
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ ان کے ساتھ آئے ہوئے اشعریوں میں سے دو اشخاص نے نبی کریمؐ سے عہدہ طلب کیا تو آپؐ نے فرمایا: ہم اس شخص کو جو عہدے کا طلب گار ہو، کام اورعہدے کی ذمہ داریاں سپرد نہیں کرتے
یہی وجہ ہے سیرتِ صحابہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ وہ مناصب سے دور بھاگتے تھے لیکن جب منصب ان کے حوالہ کیا جاتا وہ خادم بن کر خدمت انجام دیتے تھے خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے چوبیس لاکھ مربع میل کر حکومت کی……..راتوں کو اٹھ اٹھ کر پہرہ دیتے تھے اور لوگوں کی ضرورت کا خیال رکھتے تھے…..کہتے تھے اگر فرات کے کنارے کوئی ایک بکری بھی پیاسی مرگئ تو کل قیامت کے دن عمر (رضی اللہ عنہ )سے اس بارے میں پوچھ ہو گی